یہ ایسی دو صاحبِ ایمان خواتین کی کاوش ہے، جو دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئیں، وہیں بڑھی پلیں اور مروّجہ تعلیمی نظام سے مستفید ہوئیں۔ انھوں نے اپنے گردوپیش کے حالات بچشم خود دیکھے، نہایت قریب سے انھیں محسوس کیا اور ان عورتوں کو بھی دیکھا جنہیں بظاہر بڑی `آزادیاں` حاصل ہیں۔ مگر یہ سب کچھ آزادیوں کے نام پردیا گیا ایک دھوکہ ہے۔ مرد شادی تو ایک ہی کرتا ہے، مگر معاشرتی اسقام اور دانستہ کھلے چھوڑے گئے چور دروازوں سے اپنی ہوسناکیوں کی تسکین کرتا رہتا ہے۔ اسلام اور مثالی اسلامی معاشرہ چونکہ کوئی چور دروازہ نہیں چھوڑتا، اور حدود کو پھلانگنے والوں کے لیے حد اور تعزیزر کا اپنا نظام رکھتا ہے، اس لیے اس نے مرد کے ذوقِ تنّوع اور دیگر حقیقی ضرورتوں کو درونِ خانہ ہی پوری کرنے کا بندوبست کیا ہے، اسی کو تعدّ اد ازواج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر ایک بیوی بلعموم دوسری بیوی کو برداشت نہیں کرتی، اسے سوکن قرار دے کر اپنی روایتی حریف سمجھتی ہے۔ مصنفات کتاب ہذا نے سوکن کے مروّجہ مفہوم کے حوالے سے پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کی ہیں اور اس تجربے میں سے بسلامت گزر کر ثابت کر دکھایا ہے کہ اسلام نے جب تعدّ اد ازواج کی اجازت دی ہے تو اس نے اس سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر بھی بتائی ہیں۔ وہ تدابیر کیا ہیں؟ اس سے آگہی کے لیے ان خواتین کی اس کاوش سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اُمید ہے کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اس کو نہایت دلچسپ کتاب پائیں گی۔